Skip to main content

Featured Post

The history of GREAT WALL OF CHINA | Sahir Studio

GREAT WALL OF CHINA    History of the Great Wall of China:  The Great Wall of China is the national military defense project in the cold weapon war era with the longest time and the largest amount of construction in the world. It condenses the sweat and wisdom of our ancestors and is the symbol and pride of the Chinese nation.  According to historical records, since the Warring States period, more than 20 vassals and feudal dynasties have built the Great Wall. The earliest was the Chu Kingdom. To defend the nomadic or enemy countries in the north, they began to build the Great Wall. Subsequently, Qi, Yan, Wei, Zhao, Qin, and other countries also began to build their own Great Wall for the same purpose.  After Qin unified  the six countries, the famous emperor Qin Shihuang sent Meng Tian northward to the Xiongnu, connecting the Great Walls of various countries. From Linyao in the west to Liaodong in the east, it stretched for more than 10,...

اور نــیـل بہـــتـارھـا(قـســــــط نـــمـــبـــــر/3)



❂•🇵🇰┅❂❀﷽❀❂┈🇵🇰•❂
╗═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╔
       🌌🌟اور نــیـل بہـــتـارھـا🌟🌌
╝═════•○ اஜ۩۞۩ஜا ○•══════╚


🔲🌻قـســــــط نـــمـــبـــــر /3🌻🔲


عمر بن عاص مالدار باپ کے بیٹے تھے اور تجارت بھی وسیع پیمانے کی تھی اس لئے
سیروسیاحت کا ذوق و شوق بھی تھا وہ جہاں چاہتے بڑے آرام سے جا سکتے تھے۔
 شماس کی پیشکش قبول کرنے میں وہ اس لئے پس و پیش کر رہے تھے کہ وہ احسان کا
صلہ نہیں لینا چاہتے تھے۔
 ویسے شماس کی پیشکش عمر بن عاص کی خواہش کے عین مطابق تھی۔
 انہوں نے اس کی بہت شہرت سنی تھی اور کئی بار انہیں اسکندریہ جانے کا خیال آیا تھا انھوں
نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ آج کیا واقعہ ہوا ہے اور یہ شخص انہیں کیا صلہ دے رہا ہے۔
اپنے ساتھیوں کی اس جماعت کے وہ سربراہ تھے ۔
ساتھی انھیں روک نہیں سکتے تھے۔
 انہوں نے کہا کہ وہ شخص کی پیش کش قبول کر لے اور اس کے ساتھ چلے جائیں۔
 عمرو بن عاص نے اپنی پسند اور مرضی کا ایک ساتھی اپنے ساتھ تیار کرلیا اور اگلے
روز وہ آ گئے جہاں شماس ٹھہرا ہوا تھا۔
 اسے بتایا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ اسکندریہ جائیں گے انہوں نے روانگی کا دن اور وقت
طے کرلیا۔
اس دور میں نہر سوئز نہیں ہوا کرتی تھی اس لیے خشکی کے راستے بھی
مصر جایا جاسکتا تھا ۔
اور اسکندریہ تک جانے کے لیے بحری راستہ بھی تھا یہ بتانا ممکن نہیں کہ وہ لوگ کس
راستے گئے خشکی یا سمندر کے راستے ، تاریخ نے اتنا ہی لکھا ہے کہ عمرو بن عاص
اپنے ایک ساتھی کے ساتھ شماس کے ہمراہی میں اسکندریہ پہنچ گئے۔
 بیت المقدس سے اسکندریہ کا فاصلہ پانچ سو کلومیٹر ہے۔
عمرو بن عاص نے جب اسکندریہ شہر کی شان و شوکت اور حسن و جمال دیکھا تو وہ
حیران رہ گئے۔
 تاریخ میں لکھا ہے کہ انہوں نے بے ساختہ کہا ،شماس میں نے ایسا شہر اور اتنی دولت
کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی ۔
جس کی ریل پیل یہاں دیکھ رہا ہوں۔
 مورخوں نے ایک واقعہ لکھا ہے جو دلچسپ بھی ہے اور فکر انگیز بھی ۔
وہ یوں ہے کہ انہی دنوں اسکندریہ میں ایک جشن منایا جارہا تھا۔
 تاریخ میں یہ پتہ نہیں ملتا کہ کیسا جشن تھا؟ جس میں صرف شہر کے لوگ ہی شامل نہیں
تھے بلکہ شاہی خاندان بھی اس میں شامل تھا اور امراء وزراء اور حاکم بھی اس میں شریک تھے۔
 شہسواری تیراندازی تیغ زنی اور کشتیوں کے مقابلے بھی ہو رہے تھے لوگوں نے بڑے ہی
قیمتی کپڑے پہن رکھے تھے۔
شماس عمرو بن عاص کو بھی اس جشن میں لے گیا ۔
شماس نے عمرو بن عاص کے لیے ریشمی لباس تیار کروا کے انھیں پہنایا تھا ۔
عمرو بن عاص نے دیکھا کہ شاہی افراد اور حکام بالا میں شماس کو خصوصی
پذیرائی حاصل تھی۔
 اس روز اس جشن کی خاص تقریب منائی جا رہی تھی۔
لوگ ایک دائرے میں اکٹھا ہو گئے تھے۔
 شاہی افراد کے لئے آگے بیٹھنے کے لئے جگہ بنائی گئی تھی لوگوں کے ہجوم کے
درمیان جو خالی جگہ تھی وہاں ایک آدمی کھڑا تھا ۔
اس کے ہاتھ میں ایک سنہری گیند تھی وہ بار بار گیند کو پوری طاقت سے اوپر
کو پھیکتا تھا۔
 اور گیند اوپر جا کر زمین پر گرتی تھی۔


شماس نے عمروبن عاص کو بتایا کہ جب کبھی یہ جشن منایا جاتا ہے۔
 اس میں یہ تقریب ضرور منعقد ہوتی ہے۔
 ایک آدمی آنکھیں بند کرکے گیند اوپر پھیکتا ہے اور ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جس
شخص کے ایک بازو پر گرے وہ شخص بادشاہ بنے بغیر مر نہیں سکتا ۔
عمرو بن عاص نے دیکھا کہ گیند زیادہ تر زمین پر گرتی تھی۔
 اور اگر کسی آدمی پر گریں تو اس کے بازو پر نہ گری سر پر یا کندھے یا پیٹ پر گری،
شماس چونکہ صاحب حیثیت اور مرتبے والا آدمی تھا، اس لئے اسے آگے بیٹھنے کو
جگہ ملی اور وہ عمرو بن عاص کو بھی آگے لے گیا، 
گیند پھینکنے والے نے ایک بار پھر گیند اوپر کو پھیکی تو گیند عمرو بن عاص کے
دائیں بازو پر آپڑی اور عمرو نے گیند کو وہیں پکڑ لیا ۔
شاہی خاندان کے افراد اٹھ کھڑے ہوئے، وہ اس شخص کو اچھی طرح دیکھنا چاہتے تھے جس
کے بازو پر گیند گری تھی۔
شماس نے اٹھ کر اعلان کیا کہ اس شخص کا نام عمرو بن عاص ہے اور یہ مکہ سے
یہاں آیاہے ۔
تماشائیوں میں کئی لوگ قہقہہ لگا کر ہنسے اور کسی کی بڑی بلند آواز آئی۔
 یہ سب غلط ہے۔۔۔۔ عرب کا یہ بدو ہمارا بادشاہ نہیں ہو سکتا ۔
ہجوم میں سے کئی آوازیں اٹھیں۔
 نہیں ۔۔۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ چھوٹا ناٹا سا بدو  مصر کا بادشاہ کیسے ہوسکتا ہے؟ 
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ عمرو بن عاص عرب کے عام لوگوں کی طرح دراز
قد نہیں تھے ۔
ان کا قد چھوٹا، سر بڑا ،ہاتھ اور پاؤں کچھ زیادہ ہی بڑے تھے، ان کی بھویں گھنی تھیں،
اور منہ بھی کچھ زیادہ چوڑا تھا، داڑھی لمبی رکھتے تھے، سینہ تو خاص طور پر چوڑا تھا۔
یہ کسی دلکش آدمی کی تصویر نہیں بنتی لیکن ان کی سیاہ چمکیلی آنکھوں اور چہرے پر
بشاشت اور زندہ دلی کا تاثر رہتا تھا۔
 غصے والی بات پر بھی انہیں غصہ نہیں آتا تھا ان کا یہ جسم دیکھ کر اسکندریا
والوں نے ان کا مذاق اڑایا اور کہا کہ یہ شخص انکا بادشاہ نہیں ہوسکتا۔
اللہ کے بھید کو کوئی نہیں پا سکتا ،کوئی بھی نہ سمجھ سکا ۔
خود عمروبن عاص بھی نہ سمجھ سکے کہ یہ اللہ تبارک و تعالی کا ایک اشارہ ہے۔
 جو کچھ ہی عرصے بعد عملی شکل میں سامنے آجائے گا ۔
اور آج جو لوگ اور شاہی خاندان کے جو افراد اس عربی بدو کا مذاق اڑا رہے ہیں
یہ انقلاب بھی دیکھیں گے کہ یہی عربی مصر کے بادشاہ کا تخت الٹ دے گا۔
 اور فاتح مصر کہلائے گا اور انھیں لوگوں پر اس کا حکم چلے گا۔
گیند کی رسم ادا ہو چکی تھی اور گیند نے ان کے عقیدے کے مطابق فیصلہ دے دیا تھا ۔
لیکن تماشائیوں کا ہجوم اس فیصلے کو منظور نہیں کررہا تھا۔
 اس رسم کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جس پر گیند گری ہو اسے اسی وقت بادشاہ بنا دیا جاتا تھا۔
بلکہ مطلب یہ تھا کہ وہ آنے والے وقت میں بادشاہ بن سکتا ہے لیکن ہجوم نے ہنگامہ بپا کر رکھا تھا۔
شماس نے عمرو بن عاص کا بازو پکڑا اور انہیں وہاں سے اٹھا کر اپنے ساتھ لے آیا اور گھر
لے گیا دو تین دن اور اسکندریہ  کی سیر کروائی اور پھر بوقت رخصت دو ہزار دینار پیش کیے ،
جو عمر بن عاص نے کچھ پس و پیش کے بعد لے لیے شماس نے عمرو بن عاص اور ان کے
ساتھی کے ساتھ اپنا ایک آدمی روانہ کیا اور اس سے کہا کہ انھیں بیت المقدس چھوڑ کر
واپس آجائے۔
ابن عبدالحکم لکھتا ہے کہ عمرو بن عاص مصر سے تو آگئے لیکن مصر
اور اسکندریہ ان کے ذہن پر ایسا سوار ہوا کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ
وہ مصر میں جاکر آباد ہونا چاہتے ہیں۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
چونکہ یہ باب اس داستان کا تعارفی باب ہے اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عمرو بن
عاص کی شخصیت اور جنگی فہم و فراست کی ایک دو جھلکیاں دیکھ لی جائیں۔
یہ تو بیان ہو چکا کہ عمرو بن عاص نے اسلام کس طرح قبول کیا تھا ۔
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کس طرح اعتماد کیا۔
 اور انہیں جنگی امور میں اعلی رتبہ دیا تھا ۔
ہم آپ کو اس داستان کے اس دور میں تھوڑی سی دیر کے لیے لے جاتے ہیں جب
ابوعبیدہ، خالد بن ولید، شرجیل بن حسنہ، اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنھم نے
شام سے رومیوں کے پاؤں اکھاڑ دیے تھے۔
 اور رومی پسپائی کی کیفیت میں داخل ہو چکے تھے۔
ہم کسی معرکے کو تفصیل سے بیان نہیں کریں گے، ورنہ اصل داستان دھری رہ جائے گی۔
 رومیوں کا مشہور جرنیل تو ہرقل تھا لیکن ان کا ایک انتہائی چالاک عیار اور مکار
جرنیل اطربون تھا۔
 اس کی عسکری فہم و فراست اور میدان جنگ میں نظروں کی گہرائی کا تو کوئی جواب
ہی نہیں تھا۔
 وہ ہرقل کا ہم پلہ اور ہم رتبہ تھا ،لیکن اس کے مقابلے میں طفل مکتب لگتا تھا ،
تاریخ حیرت کا اظہار کرتی ہے کہ مسلمان سپہ سالاروں نے اطربون کو کس طرح
شکست دے دی تھی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پردہ فرما چکے تھے، خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ
کو پیارے ہو چکے تھے ،اور اب خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔
 عمررضی اللہ عنہ عمرو بن عاص کے جوہر دیکھ چکے تھے۔
 اور ان کی خوبیوں سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے۔
 عمررضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے، کہ خالد بن ولید خطرہ مول لیا کرتے ہیں، اور شجاعت
میں دوسروں کو حیران کر دیتے ہیں، لیکن عمرو بن عاص سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں
اور آگ میں بھی کود جاتے ہیں ، جنگی مبصروں نے لکھا ہے کہ عمرو بن عاص دشمن کو
دھوکہ دینے کی پالیسی پر عمل کرتے تھے۔
 اور ان میں شجاعت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔
دوبدو معرکوں میں دشمن تو ان کے سامنے کبھی ٹھہرے ہی نہیں سکتا تھا۔
 اور انہوں نے ایسی مثالیں پیش کر کے دکھا دی تھی۔
رومی فوجیں شام سے پسپا ہوئی اور فلسطین میں مختلف مقامات پر پھیل گئی یہ رومیوں
کی ایک چال تھی جو انہوں نے مسلمانوں کی قلیل تعداد دیکھ کر چلی تھی۔
 ان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کا لشکر کسی ایک مقام پر حملہ کرے گا تو یہ تمام بکھری
ہوئی فوج اس طرح اکٹھا کر لی جائے گی کہ مسلمان کے اس تھوڑے سے لشکر کو ہر طرف سے
گھیر لیا جائے گا۔
عمرو بن عاص کے ذمہ بیت المقدس کی فتح لگادی گئی ان کے مقابل رومیوں کا انتہائی چالاک
جرنیل تھا وہ اس وقت اپنی فوج اجنادین کے مقام پر لے جا رہا تھا۔
 عمرو بن عاص نے اپنے لشکر کی نفری اور جسمانی کیفیت دیکھی تو امیرالمؤمنین حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ کمک بھیجیں دیں کیونکہ مقابلہ اطربون سے ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیغام ملتے ہی اچھی خاصی کمک بھیج دی
(اور تاریخ میں آیا ہے )کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایک بڑا دلچسپ جملہ
کہا انہوں نے فرمایا ہم نے عرب کے اطربون کو روم کے اطربون سے ٹکرا دیا ہے ۔
اب دیکھتے ہیں اس کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔
حضرت عمر اچھی طرح جانتے تھے کہ اطربون جنگی کیفیت میں لومڑی جیسی چالاکی اور عیاری
کو ایسی خوبی سے استعمال کرتا ھے کہ اپنے دشمن کو چکر دے کر بھگا دیتا ہے۔ پہلے
بیان ہوچکا ہے کہ کچھ ایسے ہی اوصاف عمروبن عاص میں بھی تھے۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
 امیر المومنین کی بھیجی ہوئی کمک فلسطین عمرو بن عاص کے پاس پہنچ گئی عمرو بن عاص
نے یوں نہ کیا کے ساری کمک اپنے پاس رکھ لیتے انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ اپنا لشکر
تین چار حصوں میں بٹ گیا تھا ۔
اور کسے کمک کی زیادہ ضرورت تھی۔
 انہوں نے دو مقامات پر  کمک بھیج دیا اور کچھ اپنے ساتھ رکھی۔
 لیکن جب آگے بڑھے تو دیکھا کہ اطربون نے اپنی فوج قلعہ بند کر لی ہے۔
 اور چاروں طرف گہری خندق کھود رکھی ہے۔ عمرو بن عاص نے دیکھ لیا کہ محاصرہ کیا
تو بڑا ہی لمبا ہوجائے گا اور خندق کی وجہ سے یہ قلعہ سر کرنا اگر ناممکن نہیں تو
بہت ہی دشوار ضرور ہوگا طریقہ ایک ہی ہے کہ اب ان کو دھوکے میں لایا جائے۔
 انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ دو ایلچی اطربون کی طرف بھیجے جن کے لئے ہدایت
یہ تھی کہ وہ اطربون کے ساتھ صلح کے معاہدے کی بات چیت کریں تو وہ یقینا نہیں مانے گا ،
لیکن اصل مقصد یہ ہے کہ قلعے کے اندر اچھی طرح دیکھیں کہ یہ قلعہ کس
طرح سر کیا جاسکتا ہے۔
 اور رومیوں کے فوج کی نفری کتنی ہے وغیرہ وغیرہ عمرو بن عاص کا مقصد
صلح نہیں تھا بلکہ جاسوسی تھا۔
 دونوں ایلچی گئے اور بات چیت کر کے واپس آ گئے۔
 عمرو بن عاص نے جب ان سے اپنے ذہن کے مطابق پوچھنا شروع کیا کہ انہوں نے
کیا فلاں چیز دیکھی تھی؟ 
یہ بات کی تھی؟ 
اطربون کے اس سوال کا کیا جواب دیا تھا ؟
اور تم لوگ دیکھ کر کیا آئے ہو؟ 
عمرو بن عاص نے دیکھا کہ یہ دو ایلچی نکمے ثابت ہوئے ہیں۔
 اور وہاں اطربون سے مرعوب ہو کر آئے ہیں۔ اور انہوں نے جاسوسی پوری طرح کی ہی نہیں۔
 عمرو بن عاص نے اپنے ماتحت سالاروں سے کہا کہ وہ خود ایلچی بن کر جائیں گے۔
 اور یہ ظاہر ہونے ہی نہیں دیں گے کہ مسلمانوں کے اس لشکر کے سپہ سالار وہی ہیں ۔
اور ان کا نام عمرو بن عاص ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کو ذرا سا بھی شک ہو گیا تو
وہ پکڑ کر قتل کروا دے گا ،یا کال کوٹھری میں پھینک دے گا۔
 عمرو بن عاص نے بھیس بدلا اور اپنے سالاروں سے رائے لی  اور انکی رائے کے مطابق
اپنے بہروپ میں کچھ تبدیلیاں کیں اور اللہ کا نام لے کر چل پڑے۔
 قلعے کے دروازے پر جاکر انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار نے انہیں ایلچی کے
طور پر بھیجا ہے۔
 اور اطربون سے بات چیت کرنی ہے ۔
اطربون کو اطلاع ملی تو اس نے انہیں فوراً بلالیا ۔
عمروبن عاص اطربون کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔
 اور ایسی اداکاری کی جیسے وہ صرف ایلچی ہیں۔
 اور اپنے لشکر میں ان کا کوئی ایسا اونچا رتبہ عہدہ نہیں۔
 اطربون نے انہیں اتنی ہی تعظیم دی جتنی ایک ایلچی کو دی جایا کرتی تھی۔
 صلح کے مذاکرات شروع ہوئے عمرو بن عاص نے تو یہ سن رکھا تھا کہ اطربون
بہت ہی چالاک  آدمی ہے۔
 لیکن انھیں اندازہ نہ تھا کہ وہ کس حد تک چالاک ہے ۔
اور اس کی نظریں کتنی گہرائی تک پہنچ جایا کرتی ہیں۔
 عمرو بن عاص آخر سپہ سالار تھے اور اپنے قبیلے میں بھی انہیں برتری حاصل تھی
اور یہ برتری انکا بنیادی جزو تھا۔
 انسان شعوری طور پر تو بہت کچھ کرسکتا ہے۔
 لیکن لاشعور پر پردہ ڈالنا ممکن نہیں ہوتا، شاید باتیں کرتے کرتے عمرو بن عاص  کے
منہ سے کچھ ایسی بات نکل گئی ہوں گی یا انہوں نے لب و لہجے میں کوئی ایسا تاثر پیدا کر دیا
ہو گا کہ اطربون چونکا۔
 میری نظروں نے مجھے کبھی دھوکا نہیں دیا اطربون نے مسکراتے ہوئے کہا میرا خیال ہے
کہ میں کسی ایلچی سے نہیں بلکہ عرب کے سپہ سالار کے ساتھ بات کررہا ہوں ۔
کیا تم عمرو بن عاص نہیں ہو ؟
نہیں عمرو بن عاص نے جواب دیا ۔
اگر میں عمرو بن عاص ہوتا تو اپنے اوپر جھوٹا پردہ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ہمارے
سپہ سالار عمرو بن عاص اتنے نڈر اور بے خوف انسان ہیں کہ انہوں نے کبھی جھوٹ بولا ہی نہیں۔
 تاریخ میں لکھا ہے کہ اطربون ہنس پڑا جیسے وہ عمرو بن عاص کی بات مان گیا ہو اور
انہیں ایلچی ہی سمجھ رہا ہو۔
 جنگ کے بعد جنگی قیدیوں سے پتہ چلا تھا کہ اطربون نے عمر بن عاص کو صحیح پہچانا تھا۔
اور انہیں دھوکا یہ دیا تھا کہ اسے غلطی لگی ہے اور واقعی ایلچی ہے۔
 عمرو بن عاص اس کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے اور سوچنے لگے کہ یہاں سے
کس طرح نکلا جائے۔
 انہیں شک اس طرح ہوا کہ مذاکرات کے دوران اطربون کسی بہانے باہر نکلا اور جلدی واپس
آ گیا اور مذاکرات شروع کردیئے اس کی اس حرکت سے عمرو بن عاص کو پکا شک
ہوگیا کہ ان کی خیر نہیں۔
 بعد میں جو اصل بات کھلی تھی وہ یہ تھی کہ اطربون نے باہر جاکر اپنے ایک محافظ سے
کہا تھا کہ وہ فلاں جگہ جاکر انتظار کرے اور یہ عربی جو اندر بیٹھا ہے واپس جا رہا ہوں
تو پیچھے سے اس کی گردن پر ایسا وار کرے کہ سر تن سے جدا ہو جائے۔
 وہ محافظ اس جگہ چلا گیا تھا جو اس کام کے لیے موضوع تھی عمرو بن عاص نے ایک
طریقہ سوچ لیا انہوں نے مذاکرات کا رنگ ہی بدل ڈالا اور یوں ظاہر کرنے لگے جیسے
وہ رومیوں کی طاقت سے ڈرتے ہیں اور ان کے شرائط مان لیں گے اس رویے کا اثر ان
پر خاطر خواہ اثر ہوا۔
 اب میں آپ کو اپنی اصل حیثیت بتاتا ہوں عمرو بن عاص نے کہا ۔
میں سپہ سالار عمرو بن عاص کا بھیجا ہوا ایلچی نہیں ہوں۔
 بلکہ ہم اپنے امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ)کے بھیجے ہوئے دس مشیر
ہیں اور ہمیں آپ کے ساتھ صلح کی بات چیت کیلئے بھیجا گیا اور ہمارے حکم یہ ہے کہ قابل
قبول شرائط مان لیں۔
ہم مدینہ سے سیدھے آپ کے پاس پہنچے ہیں۔
عمروبن عاص کا ان مذکرات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
میں نے آپ کی بات سن لی ہے ۔
میرے باقی نو ساتھی  میرے انتظار میں بیٹھے ہیں اگر آپ چاہیں تو میں ان سب کو یہاں لے آؤں گا
اور آپ چاہیں تو میں جاکر انہیں بتاؤں گا کہ یہ بات ہوئی ہے ۔
فیصلہ کرکے آپ کو بتا دیں گے مجھے یہی توقع ہے کہ میرے ساتھی آپ کی شرائط مان لیں گے ۔
 یہ تو اور زیادہ اچھا ہے اطربون نے کہا بہتر ہے تم انہیں یہی لے آؤ۔
اطربون پھر کسی کام کے بہانے  باہر نکلا اور ایک محافظ کو یہ حکم دیا کہ فلاں محافظ فلاں
جگہ کھڑا ہوگا اسے کہہ دو کہ تمہیں جو پہلے کام بتایا تھا وہ اب نہیں کرنا اور واپس آ جاؤ۔
عمروبن عاص وہاں سے اٹھے  خیروخوبی قلعے سے نکل آئے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔
اطربون شام تک انتظار کرتا رہا۔
 یہ عربی سپہ سالار مجھے دھوکا دے کر زندہ نکل گیا ہے ۔
اطربون نے کہا میں نے اس سے بڑھ کر عیار آدمی کبھی نہیں دیکھا۔
 اس کے بعد میدان میں بڑی خونریز لڑائی ہوئی جس میں دونوں طرف کا بے پناہ جانی نقصان ہوا
اور اطربون اپنی بچی کچھی فوج کو ساتھ لے کر بیت المقدس چلا گیا اور وہاں فوج کو قلعہ
بند کر لیا عمرو بن عاص اور ایک دو اور سالاروں نے بیت المقدس کو محاصرے میں لے لیا۔
 ایک روز عمرو بن عاص کو اطلاع دی گئی کہ اطربون کا کوئی ایلچی پیغام لایا ہے۔
 انہوں نے ایلچی کو فورا بلالیا اور پیغام لے کر پڑھا اطربون نے لکھا تھا۔
 تم میرے دوست ہو اور تمہاری قوم نے تمہیں وہی رتبہ دیا ہے جو میری قوم نے مجھے دے
رکھا ہے۔
 میں تمہیں کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا تم نے اگر اجنادین ہم سے لے لیا تو اس
خوش فہمی میں مبتلا نہ رہنا کہ تم فلسطین کا کوئی اور حصہ فتح کر لو گے ۔
تم فلسطین میں اب کوئی اور کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تمہارے لیے بہتر یہ ہے
کہ یہیں سے واپس چلے جاؤ اور اپنے آپ کو تباہی سے بچا لو اگر تم نے میری بات نہ مانی
تو تمہارا انجام انہیں جیسا ہوگا جو بیت المقدس کو فتح کرنے آئے تھے اور پھر زندہ واپس
نہ جا سکے۔
 عمرو بن عاص نے اطربون کے ایلچی کے ہاتھ اس کے پیغام کا جواب بھیج دیا انہوں نے
'جواب میں لکھا۔
 میں فلسطین کا فاتح ہوں میں تمہیں دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ اپنے مشیروں کے ساتھ تبادلہ
خیال کرلو ہوسکتا ہے وہ تمہیں تباہی سے بچانے کے لئے کوئی دانشمندانہ مشورہ دے سکے۔
 اجنادین اور بیت المقدس کی فتح ایک الگ داستان ہے یہاں ایک دلچسپ بات سامنے آتی ہے جو
تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ اطربون نے عمرو بن عاص کا
پیغام پڑھا ان کی الفاظ پڑھ کر وہ ہنس پڑا کہ میں فلسطین کا فاتح ہوں۔
 ابھی بیت المقدس فتح نہیں ہوا تھا اطربون نے عمرو بن عاص کا یہ پیغام اپنے مصاحبوں اور
مشیروں کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ عمرو بن عاص بیت المقدس کا فاتح نہیں ہوسکتا ،
اس نے ایسے لہجے میں یہ بات کہی کہ سننے والوں کو یہ خیال آیا کہ بیت المقدس ضرور
فتح ہوگا ،لیکن فاتح عمر بن عاص نہیں ہونگے، ان میں سے کسی نے اس سے پوچھا کہ
اس نے ایسی بات کیوں کہی ہے۔
 بیت المقدس کے فاتح کا نام عمر ہے،، ۔
اطربون نے یہ عجیب بات کہی ، توریت میں لکھا ہے کہ بیت المقدس کے فاتح کے
نام میں صرف تین حروف ہوں گے یہ تین حروف عمر ہوسکتے ہیں۔
 پھر تورات میں عمر کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں جن میں کسی کو شک و شبہ کی
گنجائش نہیں تورات میں صاف لکھا ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔
 طبری لکھتا ہے کہ اطربون نے یہ بات حتم و یقین کے لہجے میں کہی اور اس کی اس
مجلس پر سناٹا طاری ہو گیا ۔
بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اطربون بغیر لڑے بیت المقدس سے اپنی فوج نکال
کر مصر کو بھاگ گیا۔
=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
جاری ہے بقیہ قسط۔4۔میں پڑھیں
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷=÷

─━━━═•✵⊰✿⊱✵•═━━━─

Comments

Post a Comment

Please do not enter any spam link in the comment box.

Popular posts from this blog

History of TIKAL IN GUATEMALA | Sahir Studio

The Tikal sit is so beautiful that a trip to Guatemala alone would be worth it . There are no more beautiful remains than those of Tikal to know the legendary Mayan civilization. History of Tikal: The history of the wonderful site of Tikal dates back to the 7th century BC. This is the time when the first Mayans settled there. They did not choose the place causally; Tikal was wild enough to be a suitable place for them. It was only around 200 BC that the first buildings appeared, over time they became the splendid pyramids that can still be admired today. For a long time Tikal would have been an important religious center, but also a very strategic commercial crossroads. The city has experienced eventful successions among its various kings. Rumors still run in the jungle. Apparently Smoking Frog would have assassinated Jaguar's Great Paw to ascend the throne. It seems that Owl Thruster and his son First Crocodile would not be involved only casually in this...

The Top 25 World’s Most Beautiful Porn Stars (Updated 2023) part-1

  As we are about to enter 2023, let us present you the list for which we all have been eagerly waiting. Yes, friends the list of the top 25 world’s  most beautiful porn stars  who had kept your hands and dicks busy in 2023 and are in no mood to spare you in 2023. With their exotic hourglass figure and seductive eyes, their jingling tits, their cum dripping pussies, and the big round booty, they have kept you awestruck all these years and you will be amazed to see how they have exceeded all your expectations and worked so hard to be the best on this list. To be on this list they have done it all, from cosplay to bondage, taking big monster cocks stretching their pussies and butt holes to extreme limits, getting wet by the vibrators. They have been played with and treated like sex dolls and even sometimes they have been so lonely, masturbating by themselves. But they did it all just for us! We did enjoy the show. Didn’t we? It’s a guarantee, all of us are thrilled to find ...

The Top 25 World’s Most Beautiful Porn Stars (Updated 2023) part-2

  13. Tera Patrick Love getting inked? Need some motivation? Go ahead! Take a look. Got any ideas? Yes! Thank me later. This American pornographic actress and model who is the Penthouse Pet of the Month for February 2000 love all kind of kinky stuff. Feeling bored? Got some toys and looking for someone to play with? I am sure she will be your best friend and will teach you how the game is played. 14. Tori Black Any plans for this festive season? Planning for a party with your gang? Don’t forget to invite her, as Tori doesn’t want to be left alone. Trust me she will make the party go wild, with all the required skillsets for the entertainment Tori Black knows how to entertain. Being in the industry for a long time now she is an expert in handling all kinds of jobs you may provide her to complete. Go ahead mess with her all you want she won’t mind but remember not to smudge her eyeliner. 15. Allie Haze Oh! She’s so adorable. Is that what you are thinking? Yes! But don’t be fooled by...